ان حسین آنکھوں کو تو دیکھ نظر سے
کیا ہے اس میں کہانی تو دیکھ نظر سے
معصوم اُلفت باتیں ہیں انداز سے کرتے
جیسے بہار جدوجانی تو دیکھ نظر سے
اس کی مورت کا رنگ بسنت سے پوچھو تو
جیسے شہنشاہ کی ہو مہارانی تو دیکھ نظر سے
ان کالی کالی آنکھوں میں ایسا بس گیا میں
جیسے ساحل کے کنارے پانی تو دیکھ نظر سے
ماضی حال اور مستقبل جیسے ہو میخانہ
ہے کون ساقیٕ بانی تو دیکھ نظر سے
ہم سے کیا پوچھتے ہو شب وصبا سے پوچھو
اس دل نے کیا ٹھانی تو دیکھ نظر سے
وہ چھوڑ گۓ اَمیر جینا چھوڑ دے
تیرے روح جسم فانی تو دیکھ نظر سے