ان کا لہجہ رباب سے بڑھ کر
ہر ادا ہے شباب سے بڑھ کر
یوں تو معصوم ہیں بہت لیکن
شوخیاں ہیں عذاب سے بڑھ کر
عارضوں پر ہے شام کی سرخی
ہونٹ ان کے گلاب سے بڑھ کر
دل کے شیشے میں اور کیا ہو گا
اس حسین ماہتاب سے بڑھ کر
وہ جو اس کے بنا گزاری ہے
زندگی تھی عذاب سے بڑھ کر
ان کی چپ میں ہزار قصے ہیں
خامشی تھی کتاب سے بڑھ کر
کیا کسی سے وہ مل کے آئے ہیں
لگ رہے ہیں نواب سے بڑھ کر
کہہ دو ان سے فرح کوئی نہیں
دل میں میرے جناب سے بڑھ کر