ان کا پتا نہیں کہ وہ اب تک دعا کے ہاتھ
"کوشش بھی کی دعا بھی کی ہم نے اٹھا کے ہاتھ "
آتا نہیں ہے لوٹ کر دنیا سے جو گیا
وہ جانتے ہیں زیر زمیں جو دعا کے ہاتھ
شاہد وہ مل ہی جائے کسی موڑ پر کہیں
ان کا پتا نہیں کہ وہ اب تک جفاکے ہاتھ
جب زندگی یہ درد کی موجوں کی زد میں تھی
دریا کے بیچ بیچ کنارا ہوا کے ہاتھ
پھیلے ہیں راستے مری آنکھوں میں اس قدر
اترا ہے جو بھی خواب کئی جو وفا کے ہاتھ
میں سوچتی ہوں جنت و افلاک کے لیے
ادنی سا اک وجود سبھی ہے خدا کے ہاتھ
وشمہ تو چھین لے مری اک بار زندگی
ہوتا ہے مجھ کو درد زرا نا خدا کے ہاتھ