ان یادوں سے کہہ دو کہ تمہیں یاد نہ آئیں
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillکرنوں کا سمٹنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
خوشبو کا بکھرنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
ملنے کے وہ ہر روز کئی شوخ بہانے
پھر سوچ کے ہنسنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ بیٹھ کے چھاؤں میں حسیں وقت کے وعدے
وعدوں سے مکرنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
لمحوں کو چھیڑتی ہوئی مسحور ادائیں
آنچل کو جھٹکنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
پڑھنا کبھی “شعاع“ تو کبھی رضیہ کے ناول
پھر ان میں بھٹکنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ بیچ رسالے کے چھپانا میری تصویر
وہ صفحے پلٹنا بھی تمہں یاد تو ہو گا
وہ محسن و پروین کے اشعار کو اکثر
دیوار پہ لکھنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ پھونک سے تتلی کو ہتھیلی سے اڑانا
پھر اسکو پکڑنا بھی تہیں یاد تو ہو گا
شب بھر وہ خیالات کا اک جھیل کنارا
تاروں سے الجھنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ چاند کی نگری سے کسی شاہسوار کا
زینے سے اترنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ آئینے کے سامنے گھنٹوں کھڑے رہنا
بے وجہ سنورنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ ہلکی سی آواز میں سننا لتا کے گیت
آسوں کا چمکنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
کالج کے کوریڈور میں وہ سامنا ہونا
وہ نوٹس کا گرنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
لکھ لکھ کے میرا نام ہتھیلی پہ ناز سے
پھر اسکو کھرچنا بھی تمہیں یاد تو ہا گا
وہ زکر جدائی سے تیرا سہم سا جانا
بچوں سا سسکنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ رات گئے ڈائری لکھتے ہوئے یکدم
کاجل کا ٹپکنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ وقت جدائی وہ تیرا ٹوٹ کے رونا
اور میرا پلٹنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
پھر عمر بھر نہ ملنے کے کچھ تلخ سے پیماں
اور پھر وہ بچھڑنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ گزرے ہوئے پل ،وہ ہوائیں ،وہ فضائیں
وہ وقت کی ،لمحات کی البیلی ادائیں
ممکن ہے کہ خوابوں میں تمہیں روز ستائیں
ان یادوں سے کہہ دو کہ تمہیں یاد نہ آئیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






