اور سے جب اور ہو جائیں گے ہم
پھر تو زیر ِ غور ہو جائیں گے ہم
کیا خبر تھی اک گواہی کے سبب
سلطنت کے چور ہو جائیں گے ہم
کیا خبر تھی درد جیسی چیز سے
آشنا اس طور ہو جائیں گے ہم
عشق سے وعدہ وفا کرتے ہوئے
ایک دن بے زور ہو جائیں گے ہم
پھر تماشا دیکھنا چاہیں اگر
پھر سہی درگور ہو جائیں گے ہم
تاج وہ سر کا اگر بن جائیں تو
شہ جہاں کا دور ہو جائیں گے ہم
توڑنے سے زخم وشمہ آئیں گے
تیز ایسی ڈور ہو جائیں گے ہم