میری آنکھوں سے نیندیں
کیوں چرا کے سو گئی ہو تم
ہجر کی آگ دیکر
کس طرح سے کھو گئی ہو تم
مجھے تو یاد ہیں وہ
ساری باتیں
اور تیرا سپنا
سحر انگیز لہجے سے مجھے کہتی تھی تم اپنا
زرا سی بات پر میری
بھڑک کے روٹھ جاتی تھی
بھری رنگیں کلائی سے
اک چوڑی ٹوٹ جاتی تھی
مقدر کے تماشے کو کبی بھی نہ سمجھ پایا
ضیاء کیسے بتاؤں میں کہ پھر ایسا بھی دن آیا
روانہ ہو رہی تھی وہ
میری نظریں سوالی تھیں
جواب اتنا ہی کافی تھا
کلائیاں اسکی خالی تھیں