اُسکا چہرہ بھی ہے اُسی کی طرح مغرور
کوئی دیکھے تو کیسے وہ رہتا ہے سب سے دور
لگتا ہے ھو بہ ھو اُسی تجلی جیسا
جس سے جل گیا ہو گا کوہِ طور
مُلّا نے پڑھی نمازیں اور کیا چہرہ روشن
روشن اُس جیسا جو چھلکتا ہے اُسکی پیشانی سے نور
مسجد میں نہ ملے تو ساقی کی نظر سے شیخ
دیکھنا اُسکی انکھوں میں خدا ملے گا ضرور
وہ چہرہ تھا رو بہ رو میرے، چھوا نہ اُسے
اسے شرافت کہو یا کہہ دو بندہ تھا مجبور