اُس سے ملنے کی ہے آرزو چاندنی
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreاس سے ملنے کی ہے آرزو چاندنی
آؤ مل کر کریں جستجو چاندنی
وہ جو کہتے تھےکہ عشق آسان ہے
اب وہ کرتے ہیں کیوں ہاؤہو چاندنی
جس کے دم سے ہیں دنیا کی سب رونقیں
وہ تو ہے بس یہی کاؤکو چاندنی
سب پہ ہوتی ہیں تیری مہر بانیاں
بھر دے میرے بھی جام و سبو چاندنی
جھلکیاں ہی دکھا دو مجھے یار کی
کچھ تو رکھ لے مری آبرو چاندنی
ہے مرے یار کی ہر ادا دلربا
خامشی چاندنی گفتگو چاندنی
ناز دیکھو تو اُس کے ہیں کیا دلفریب
اور ہے دل پذیر اُس کی خُو چاندنی
اُس کے چہرے پہ غا زہءِ شرم و حیا
کر نہ دے گا اُسے سرخ رو چاندنی
اُس کا چہرہ تو ہے سر بسر چاند سا
اور اُس کی ہنسی ہو بہو چاندنی
تیغِ ابرو اگر یونہی چلتی رہی
کیا نہ ہو جائے گا دل لہو چاندنی
خواب میں میں نے دیکھا تھا اِک چاند کو
آنکھ کھولی تو تھی روبرو چاندنی
اُس کی خوشبُو تھی پھیلی ہوئی ہر طرف
اور تھی بکھری ہوئی چار سُو چاندنی
دیکھ کر تیرے لوگوں پہ لطف و کرم
یاد آتا ہے وہ ماہرو چاندنی
چاند اُس کا نکلتا ہے جب بام پر
رقص کرتے ہیں سب رنگ و بو چاندنی
اُس کی خاطر ہوں صحرا میں بیٹھا ہوا
چھوڑ آیا ہوں سب کاخ و کو چاندنی
میٹھی میٹھی ہی باتیں کرو جانِ من
ہو نہ جائے کہیں تند خو چاندنی
پاس ہو تُو اگر تو یہ ہے مہرباں
ورنہ ہوتی ہے یہ شعلہ رو چاندنی
ساتھ تیرے ہی ملنے یہ آتی ہے کیوں
بن نہ جائے کہیں یہ عدو چاندنی
چاند بھی جس کو ملنے تھا آیا ہوا
کس قدر ہو گا وہ خوبرو چاندنی
رات بھر پیار کی سیج پر بیٹھ کر
باتیں کرتی رہی دوبدو چاندنی
اُس کے صدقے میں مجھ کو بھی شہرت ملی
تذکرہ ہے مرا کوبکو چاندنی
میرے چہرے سے بہتا لہو عشق میں
کر نہ دے گا کیا سرخ رو چاندنی
چاہتا ہوں میں مر جاؤں حق کے لئے
جانے کب یہ کٹے گا گلو چاندنی
ہم تو قسمت کےمارے ہوئے لوگ ہیں
ہم سے ملنے کیوں آتی ہے تُو چاندنی
یاد کرکر کے اُس کو میں پیتا رہا
دیکھ خالی پڑے ہیں کدو چاندنی
میں بھی بے ہوش ہوں تو بھی بے ہوش ہے
ہوش میں آکے ملنا کبھو چاندنی
جب سے دل میں ہے اک چاند اترا ہوا
ہر طرف ہے مرے تُو ہی تُو چاندنی
ہر کسی کے لئے ہے فنا ہی فنا
اور باقی ہے بس اللہ ہو چاندنی
دل کی کشتی میں تھا وہ ہی تنہا و سیم
اور یادوں کی تھی آب جو چاندنی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






