اُس نے کل رات چراغ اپنا بجھائے رکھا
ہم نے اس دل کو محبت میں جلائے رکھا
یادِ محبوب کو یوں دل سے لگا رکھا ہے
جیسے فرہاد نے سینے سے لگائے رکھا
دیکھ کر عُلوی مناظر نے بڑا شور کیا
رات سی زلفوں میں چاند اس نے سجائے رکھا
جذبہ پیار تھا اسوار مرے شانوں پر
اس نے بھی پیار میں دیوانہ بنائے رکھا
جب مسلسل یہ نظر اس کے نہ چہرے سے ہٹی
اُس نے دانتوں میں ہی آنچل کو دبائے رکھا
دامنِ یار میں لیٹے تو ہوا جانے کیا
ہم بے ہوش تھے اس نے بھی سلائے رکھا
ہم سے کہتے تھے ظلم اور نہیں ڈھائیں گے
اور دیدار کا خنجر بھی چلائے رکھا
جعفری آج وہ غزلوں میں بیاں ہونے دو
زندگی بھر جو غم و درد چھپائے رکھا