اُس کی خاطر ہی مر مٹا ہوں میں
Poet: جنید عطاری By: جنید عطاری, چکوالاُس کی خاطر ہی مر مٹا ہوں میں
جس کے قدموں تلے بچھا ہوں میں
ہجر نے اِس قدر گٹھا ڈالا
گننے میں کچھ نہیں بچا ہوں میں
کیا بتاؤں بچھڑ کے جاں تجھ سے
زندہ رہ کر بھی مر گیا ہوں میں
جسم ہی گُھل گیا اُن آنکھوں میں
نم بہ نم خُوں ہوئے بہا ہوں میں
تُو مرے پاس رہ کے ہو محفوظ
نیک اتنا نہیں ہوا ہوں میں
ویسے تو کچھ نہیں ہوا مجھ کو
خیر وہ، خُون تھوکتا ہوں میں
بے خُودی کے نشے میں دُھت ہو کر
تیری بانہوں میں آ گرا ہوں میں
میں یہاں پر کہیں نہیں موجود
تیرے اندر کہیں پڑا ہوں میں
یار تیرے بدن کو چھُوتے ہی
وہ لگی آگ جل سڑا ہوں میں
میں نے تجھ کو کہاں نہیں ڈھونڈا
تھام لے بڑھ کے اب تھکا ہوں میں
یہ تری یاد ہے یا دوزخ ہے؟
غور کرنے پہ جل بھنا ہوں میں
کس میں دم ہے جو مجھ کو سہہ پائے
بات بے بات چیختا ہوں میں
اب تو ہر بات طنز لگتی ہے
اتنا حَسّاس ہو چکا ہوں میں
آج سب یار مر گئے میرے
اور کفن چومے رو لیا ہوں میں
اب مرے قد تک آنکھیں اُٹھتی نئیں
سب کی نظروں سے گِر گیا ہوں میں
مجھ کو ہر آن خود سے خطرہ تھا
سو کسی اور میں جا چھپا ہوں میں
باوجود اس کے کوئی شکوہ نئیں
بے وجہ سب سے روٹھتا ہوں میں
مجھے بس تُم سے ہی محبت تھی
واقعی! جھوٹ بولتا ہوں میں
کسی کروٹ تو چین پڑ جائے
صرف سونے سے تھک رہا ہوں میں
نیند اتنی تو مہرباں نہ ہوئی
جس قدر خواب دیکھتا ہوں میں
کیسی بیچارگی کا عالم ہے
یعنی اپنوں سے بے گِلہ ہوں میں
تا دم منصور کا بھی نام نہیں
ہوئی مدّت خدا بنا ہوں میں
مصلحت کیا ہے بے نیازی میں
کیوں بھلا سب سے کٹ رہا ہوں میں
تُو تو وہ خواب ہے جو ہے محدود
مت سما آنکھ میں خَلا ہوں میں
خود پہ دم بھر مجھے بھروسہ نئیں
سو ترے سینے آ لگا ہوں میں
جاں ترے بعد زندگانی میں
کم جیا ہوں بہت مرا ہوں میں
عشق میں ایک جھوٹا بولا تھا
اور وہ یہ تھا کے باوفا ہوں میں
سوچ کر لمحہِ جدائی کو
مدّتوں خوف سے ڈرا ہوں میں
ہر کسی سے مکر کے بیٹھا ہوں
وہ کہ یُوں تجھ میں ہی فنا ہوں میں
عشق پر بحث مت کرو مجھ سے
اِس گھڑی طیش سے بھرا ہوں میں
ایک پل کو بھی خُود سے ٹلتا نئیں
شاید اپنی کوئی بلا ہوں میں
اپنے بارے میں کیا بتاؤں اب
یاں کا مشہور سر پِھرا ہوں میں
اب مجھے موت ہی سمیٹے گی
زندگی سے بکھر گیا ہوں میں
اے سخی ءِ جہاں کہیں اور جا
اپنا کاسہ پٹخ چکا ہوں میں
مل کہ تم سے مجھے لگا جیسے
خُود سے بچھڑا تھا آ ملا ہوں میں
جتنا غم نے مجھے اُدھیڑا ہے
اس قدر تو نہیں سِلا ہوں میں
خُود پے ہر آن ہی مسلط ہوں
جانے کس جرم کی سزا ہوں میں
کبھی فرصت سے آ ذرا مجھ تک
تیری منزل کا راستہ ہوں میں
میرے ہونے کی کوئی حجتّ نئیں
بس مقدر کی اِک خطا ہوں میں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






