گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاضِِِ زیست ہے آزردہ بہار ابھی
مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی
جو حسرتِِ ترے غم کی کفیل ہیں پیاری
ابھی تلک مری تنہایوں میں بستی ہیں
طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری
اداس آنکھیں تری دید کو ترستی ہیں
بہارِِِ حُُسن پہ پابندیِِ جفا کب تک؟
یہ آزمائشِِ صبرِِ گریز پا کب تک؟
قسم تمہاری بہت غم اُُٹھا چکا ہوں میں
غلط تھا دعویٰ صبر و شکیب ، آجاؤ
قرارِِ خاطرِِ بیتاب، تھک گیا ہوں میں