آبرودار، دربدر، سائیں
ہے کٹھن ذیست کا سفر سائیں
مر نہ جاؤں میں بے قضا پل میں
تجھ سے ٹھہروں جو بے خبر سائیں
اشہبِ وقت کب ٹھہرتا ہے
عمر بھی اتنی مختصر سائیں
ہم ادھر سے تو ہو لیے عاجز
اب بلاؤ کبھی اُدھر سائیں
زینؔ باقی گزارتے کیسے
راس آیا نہیں شہر سائیں