آج جو نظر اِک چہرا سرِ بازار آیا ہے
لگتا ہے جیسے انجامِ انتظار آیا ہے
کیا بتاوں میں نے دل کوسنبھالا کیسے
سرِشام جو آنکھوں میں خمار آیا ہے
مت پوچھو زلفوں میں چھپا چہرا اُنکا
چاندنی رات میں چاند پہ نکھار آیا ہے
اُسکی سانسوں نے جو چھو لیامجھ کو
گلِ خزاں پہ گویا موسمِ بہار آیا ہے
سخت جان عشق سہنے کے باوجود
اُنکےحُسن میں تواوربھی نکھار آیاہے
نجانے کیوں مگر یہ سچ ہے جوہر
اُنکی بے رخی پہ بھی پیار آیا ہے