اپنوں کی محبت میں دھوکا کھایا ہے کہی بار
میں نے خود کو اپنوں پہ لٹایا ہے کہی بار
یہ اور بات کہ میں ہار گیا داعو محبت کے
میری آنکھوں نے ساون کو ہرایا ہے کہی بار
تم نے کہا تھا سمجھ جائیگا دل میرا
نہیں سمجھتا کہ میں نے سمجھایا ہے کہی بار
میری چوکھٹ پہ پاؤں رکھے اُسے گزری صدیاں
یوں تو یادوں میں جا کے آیا ہے کہی بار
کنارا نہ کرتے اپنوں سے تو بتاؤ کیا کرتے
پیر ، پیر پہ اپنوں نے ستایا ہے کہی بار
جو لکھا تھا میں نے ترانہ تری الفت کا
ہر پل کے ساتھ اُسے گایا ہے کہی بار
نہالؔ ترے جانے کے بعد کومل گلابوں نے
میری تنہائیوں کا مذاق اُڑایا ہے کہی بار