صبح سویرے گھاس پے چلنا اچھا لگتا تھا
نت نئے کپڑے بدلنا اچھا لگتا تھا
گھومنا پھرنا، گانا وانا، کنگی شنگی کرکے
سامنے اس کے گھر کے آنا اچھا لگتا تھا
رات گئے یاد میں اس کی ہر سو کھوئے رہنا
سوچنا اس کو دیکھنا اس کو اچھا لگتا تھا
کالج جا کے کتابوں میں بھی دیکھتا تھا میں اسکو
سینما جانا ، بسنت منانا، اچھا لگتا تھا
لگتا تھا کہ چھپ کے مجھ کو دیکھا کرتی تھی وہ
اتنا ہی بس سوچتے رہنا اچھا لگتا تھا
میں تو تیرے پیار کو اب بھی بھول سکا نہ اے دوست
تجھ پر ہی ناصر کو لکھنا اچھا لگتا تھا