چشمِ گریاں کی روانی ہے مری آنکھوں میں
کس محبت کی کہانی ہے مری آنکھوں میں
جس پر اترا ہے کئی بار سمندر صاحب
پھر سے وہ شام سہانی ہے مری آنکھوں میں
اپنے صاحب کو میں پھر آج سلامی کرلوں
اس کی اک یاد پرانی ہے مری آنکھوں میں
تیرے ہاتھوں میں ہوں صدیوں کے مسافر پڑھ لے
ایک الجھی سی کہانی ہے مری آنکھوں میں
آج بھی تیری محبت کی امانت ہے سب
جو مرا حسن" ،جوانی مری آنکھوں میں
زورِ طوفان سے پھر ٹوٹ نہ جائے اک دن
یہ جو اشکوں کی روانی ہے مری آنکھوں میں
یہ جو ٹوٹا ہے سمندر کا کنارہ وشمہ
یہ تو چاہت کی نشانی ہے مری آنکھوں میں