اک اک ورق لہو میں تر مری پریم کہانی کا
پوچھ نہ کیسے اُجڑا گلشن اک راجے اک رانی کا
چھینا جب تقدیر نے اُس کو مری پیار کی باہوں سے
اتنا روئے اتنا تڑپے صدیوں کھیلے آہوں سے
اب دونوں کی آنکھ میں کب ہےایک بھی قطرہ پانی کا
اک کاغذ کی نِیا میں نے اِک دریا میں چھوڑی تھی
مرے پیار کی طرح صادق عمر ہی اُس کی تھوڑی تھی
ڈوب گئی تو مطلب سمجھا اِس جیون بے معنی کا