اک بار وہ کہہ دیتی تو میں واپس نہیں جاتا
اس کی زلف کی چھاؤں میں عمر بتاتا
چھوتا میں اس کے گال بال پھولوں سے سجاتا
مہندی میں اپنے خون کی ہاتھوں پہ لگاتا
یہ وادیاں پہاڑ گواہی سب دیتے
عشق کی ساری رسمیں میں نبھاتا
چنری جو اس کی اڑا لے جاتی صبا
پکڑنے اس کو میں بہت دور تک جاتا
لیکن ابتدائے عشق کا زینہ ہے اظہار
افزان اسے دیکھ کر کچھ کہہ نہیں پاتا