ہے دِل میں وہ موجود ہَمارا اُسے کہنا
واحِد میرے جینے کا سَہارا اُسے کہنا
آواز تھی دِل کی اُسے دَھڑکَن نہ کَہو تم
اک حشر کا تھا شور شرابا اُسے کہنا
جاں میری نِکلنے میں بھی آسانی بنے گی
جو روح نِکالے وہ فَرِشتہ اُسے کہنا
جیون تو سَمندر ہے جو بِپھرا ہے سدا سے
پاکر ملے راحت وہ کِنارہ اسے کہنا
دیکھا رُخِ جاناں تو ہوا میں ہوں توانا
بس واسطے میرے ہی مسیحا اُسے کہنا
جب نین بَہادے جو لہو سارا جگر کا
مت نین کہو درد کا پیالہ اُسے کہنا
جس راہ سے گزرا ہوں جلا ہوں میں ہمیشہ
رستہ نہ کہو آگ کا دریا اسے کہنا
برباد ہوا ہے دل_ مضطر میرا جب سے
دل اس کو نہ کہنا ہاں جوالا اسے کہنا
جو جان کو اپنی کرے تجھ پہ نچھاور
اپنا اُسے ہی کہنا جیالا اُسے کہنا
ہے مشورہ یہ اہل ِقلم کو میرا آصف
جو لفظ سکھا دے تجھے آقا اُسے کہنا