اک دل ہے اور تماشائی بہت
مہنگی پڑی تیرے شہر سے شناسائی بہت
تیرے لیے جو ہوئی ہوں رسوا
کس در سے ملے گی اس کی پذیرائی بہت
سادہ سا دل ہے مگر اس میں ہے سمندر پنہاں
اور ان آنکھوں میں ہے تیرے لیے گہرائی بہت
نہ ہنسا کر مجھ پہ تماشائیوں کے جیسے
مار نہ ڈالے مجھے تیری گریزائی بہت
اک بار جھانک میرے من مندر میں
تیرا درپن تیری چاہت مجھ میں سمائی بہت
تو رکھے جہاں قدم وہاں اپنی پلکیں بچھا سکتی ہوں
دیکھ تیرے واسطے ہے مجھ میں مسیحائی بہت