اے کاش! اک شام ہو ایسی بھی
سنہری جھیل کنارے ہم بیٹھے ہوں
فلک پہ چاند پورا ہو
کہیں نہ کوئی ادھورہ ہو
ہم تھامے ہاتھ اک دوجے کا
صدیوں تک یوں ساتھ چلیں
اک دوجے سے اقرار کریں
اک دوجے سے پیار کریں
وہ پیار ہو ایسا پیارا سا
اک دوجے کے وجدان کی حدت مہک اٹھے
ہم بیٹھے گیلے ساحل پر یوں
دوجسم اک جان لگیں
روحیں ہماری ساکن ہوں
سانسوں میں سانسیں مہک جائیں
یہ وقت یہیں پر تھم جائیں
یہ لمحے جامد ہو جائیں
کہ جب تک یہ دنیا یہ جہاں آباد رہے
اے کاش! اک شام ہو ایسی بھی
ہم ڈالے بانہوں میں بانہیں
دیکھیں جائیں اک دوجے کی آنکھیں
آنکھوں سے برسے نور ہی نور
وہ نور ہو بہت ہی روشن سا
کہ چاند کی چاندنی ماند پڑے
جسم جو مل جائیں اک دوجے میں
رات کی رانی بے جان لگے
وہ شام برسوں سی شام رہے
نہ شام ڈھلے، نہ چاند ڈھلے
سانسوں میں سانیس ڈھل جائیں
اک دوجے میں ہم ڈ ھل جائیں
آنکھوں میں منظر ایسا ہو
جنت میں ٹھہرنا جیسا ہو
اے کاش! اک شام ہو ایسی بھی