اک شام ہو ایسی بھی
Poet: Rukhsana Kausar By: Rukhsana Kausar, Jalal Pur Jattan, Gujratاے کاش! اک شام ہو ایسی بھی
سنہری جھیل کنارے ہم بیٹھے ہوں
فلک پہ چاند پورا ہو
کہیں نہ کوئی ادھورہ ہو
ہم تھامے ہاتھ اک دوجے کا
صدیوں تک یوں ساتھ چلیں
اک دوجے سے اقرار کریں
اک دوجے سے پیار کریں
وہ پیار ہو ایسا پیارا سا
اک دوجے کے وجدان کی حدت مہک اٹھے
ہم بیٹھے گیلے ساحل پر یوں
دوجسم اک جان لگیں
روحیں ہماری ساکن ہوں
سانسوں میں سانسیں مہک جائیں
یہ وقت یہیں پر تھم جائیں
یہ لمحے جامد ہو جائیں
کہ جب تک یہ دنیا یہ جہاں آباد رہے
اے کاش! اک شام ہو ایسی بھی
ہم ڈالے بانہوں میں بانہیں
دیکھیں جائیں اک دوجے کی آنکھیں
آنکھوں سے برسے نور ہی نور
وہ نور ہو بہت ہی روشن سا
کہ چاند کی چاندنی ماند پڑے
جسم جو مل جائیں اک دوجے میں
رات کی رانی بے جان لگے
وہ شام برسوں سی شام رہے
نہ شام ڈھلے، نہ چاند ڈھلے
سانسوں میں سانیس ڈھل جائیں
اک دوجے میں ہم ڈ ھل جائیں
آنکھوں میں منظر ایسا ہو
جنت میں ٹھہرنا جیسا ہو
اے کاش! اک شام ہو ایسی بھی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






