اےنازک گلاب کی پتی
نہ نازکی پہ فخرکر
خدانےکچھ بنایا ہے
نازک تجھ سےبڑھ کر
جب ميں کچھ بھی ديکھوں تو
بس نظر وہی آۓ
پھول بھی اسکے سامنے
اک دم سے مرجھا جاۓ
اک دن ميں نے دیکھا تو
چھت پر تنہا بيٹھی تھی
ديکھ مجھےشرما گیٔ
نظر سے وہ گھبرا گیٔ
اشارتوں ميں بتلايا
ميں نيا ہوں ہمسايہ
پھر اکثر چھت پہ جاتاتھا
اسکو وہيں پہ پاتا تھا
اک دن حوصلہ کر کہ
کبوتر کو اڑا دیا
خط وہاں پہنچا ديا
وہ جانکہ انجان بنی
کبوتر سے نادان بنی
ميں نے اسکو بتلایا
خط ہے پاؤں ميں سمجھايا
اسنے قاصد کو جکڑا
خط کو ہاتھ ميں پکڑا
ميری طرف ديکھااسنے
ہنس کر کچھ کہا اسنے
کبوتر چھوڑدیا اسنے
منہ اپنا موڑ ليا اسنے
جو قاصدلوٹ کہ آيا
کاغذ کا ٹکرابھی لایا
وہ لڑکی گنگنا بھی رہی تھی
ليکن مسکرا بھی رہی تھی
ہنسی اسکی کيا خوب لگی
اک لڑکی وہ محبوب لگی