اک ندامت کی نیند سونے نہیں دیتی
اب بھر گئی ہے آنکھ کہ رونے نہیں دیتی
میری دست برداری کچھ نہیں کہتی
یہ دنیاداری کہ تیرا ہونے نہیں دیتی
میرا حافظہ ماضی کے محور چڑہ گیا
حال کی ہی تاسفی کچھ کرنے نہیں دیتی
میں پار سے پلٹا تھا پاؤں چھل گئے
اسی منزل کے گھٹا پھر چلنے نہیں دیتی
اک ادا کے دروغ سے آزادی ہی نہیں ملتی
یہی یادوں کی رات مجھے سونے نہیں دیتی
میں موت کو بھی مات دے چکا ہوں
وہ آگئی تیری امید کہ مرنے نہیں دیتی