یونہی ڈالی تھی اک نظر اس نے
کر دیا مجھ کو معتبر اس نے
یہ دیا میری چاہتوں کا صلہ
زندگی کر دی بے ثمر اس نے
یوں سنایا مجھے فسانہ غم
آنکھ کر دی ہے میری تر اس نے
لاکھ سمجھایا مانتا ہی نہیں
پھر بدل دی ہے رہگزر اس نے
کس طرح راستہ بدلتے ہیں
یہ بھی سمجھا دیا ہنر اس نے
یہ میرے رب کی مہربانی ہہے
وا کیا مجھ پہ اپنا در اس نے
کوئی بھی اب نشاں نہیں باقی
یوں جلایا ہے میرا گھر اس نے
شہر میں کوئ جانتا ہی نہ تھا
کر دیا مجھ کو نامور اس نے