اک پھول میرے پاس تھا، مرجھا گیا ہے اب
پر بے قرار زیست، مفر پا گیا ہے اب
آیا ہے اُس گھڑی کہ ضرورت نہیں مجھے
پر اُس کو کیا کہوں وہ اگر آ گیا ہے اب
تھا بے قرار کب سے دل ناتوں مرا
دھڑکوں گا اب نہیں، وہ یہ فرما گیا ہے اب
تنہا سفر ہے دھوپ میں، سایہ کہیں نہیں
کوئی ملے کہے کہ یہ پیڑ آ گیا ہے اب
پہلے تو احتمال ہی تھا، بھول ہو گئی
اُس نے کہی تھی بات جو، دہرا گیا ہے اب
ترک تعلقات کا لہجے میں تھا یقیں
پھر لوٹنا نہیں ہے، وہ ایسا گیا ہے اب
آگے وہ پھر ملے گا، مقدر کی بات ہے
پیچھے تُجھے وہ چھوڑ کہ ٹھکرا گیا ہے اب
اب ڈھونڈ کیا رہے ہو کہ باقی نہیں ہے کچھ
اظہر جو پاس تھا، اُسے غم کھا گیا ہے اب