اگر تم پاس آجاو زندگی آساں ہو جائے
نہ کر دیر کہ پھولوں پہ غالب خزاں ہو جائے
پھول بونا، چاند دیکھنا چھوڑ دوں گا
جس روز تُو میرے گھر مہماں ہو جائے
جو بھی لکھ بیجھا تم کو الفت کے نام پر
اے کاش میرا ہر لفظ زباں ہو جائے
کہے دیا آنکھوں سے جو کچھ کہنا تھا
ہے دعا اب لبوں پہ اُنکے بھی ‘ہاں‘ ہو جائے
نہ کرو ظلم اتنا التجا ہے یہ میری
یہ نہ ہو آئیندہ محبت عبرت نشاں ہو جائے
مجھے زندگی مل جائے گی تمہیں پا لینے کے بعد
دعا ہے بس کہ پورا یہ ارماں ہو جائے
لو اُٹھاؤ نظریں اور چلاؤ تیر تم
جو بھی ہونا ہے آج امتحاں ہو جائے
جو کرنا ہے تو کچھ ایسا کرو رونق
ہوں ششدر اپنے تو غیر بھی حیرں ہو جائے