ایسا تو پہلے کبھی ہوا نہیں تھا
اتنا تو وہ مجھہ سے کبھی روٹھا نہیں تھا
پہلے آنچل میرا بھگو کر
کوئی آنسو کبھی گیا نہیں تھا
نجانے کیا ہوا ہے اب کے برس
ایسے تو کوئی دکھہ پہلے
مجھ سے لپٹا نہیں تھا
اے دل ناداں
اب کہاں فرصتیں ملیں گی تجھ کو
پہلے ایسے کوئی تجھ سے چھوٹا نہیں تھا
میرے لفضوں سے جگنو چرا کر
ایسے تو کوئی بھا گا نہیں تھا
اس شہر کا ہر شخص ہر جائی ہے
اس نے یہ سندیس بھیجا ہے
جو خود وفا کے نام سے بھی واقف نہیں تھا
وہ پھر سے نئی شکار کی تلاش میں ہے
جس نے خود کو بچایا نہیں تھا
بھول جانا اس کی فطرت ہے
تو یاد رکھنا اپنی عادت ہے
کیا بتاؤں اے اہل شہر
کہ ہم دونوں کے درمیاں
کوئی عہد ہوا نہی تھا
جب وہ نئے لوگوں کی راہیں دیکھتا تھا
میں اس کی جفائیں دیکھتی تھی
یہی وہ لمحہ ہوتا تھا
جس پل شام میں یہ سوچتی تھی
ایسا تو پہلے کبھی ہوا نہیں تھا