مجھے تم سے محبت ہے
حقیقت تھی حقیقت ہے
اگرچہ جانتا ہوں میں
کہ یہ میری حماقت ہے
محبت جس کو کہتے ہیں
وہ پاکیزہ عبادت ہے
اگر تم تھام لو یہ دل
تو یہ میری سعادت ہے
بنو تم دھڑکنیں اس کی
یہ پاگل دل کی حسرت ہے
یہ چاہت ہے تمہیں دیکھوں
تمہاری کیا شباہت ہے
تمہارا پیرہن کیا ہے
اور اس میں کیا نفاست ہے
تکلّم کا ہے کیا انداز
اور کیسی نزاکت ہے
ترو تازہ سا ہے چہرہ
اور اس میں کتنی نکہت ہے
رخ اختر پہ کھونگھٹ کی
یہ دیکھوں کتنی عصمت ہے
ہیں کیسے گیسو و ابرو
اور ان کی کیا کتابت ہے
ہے زلف و پیچ و خم کتنی
اور اس کی کیسی رنگت ہے
قدو قامت ہے کیا تیرا
یونہی ہے یا قیامت ہے
تمہاری آنکھوں میں دیکھوں
کہ واں کتنی طراوت ہے
ترا دستِ حنا تھاموں
کہ اس میں کتنی حدّت ہے
لبوں کا رنگ ہے کیسا
اور ان کی کیا حلاوت ہے
اے دل! مت مانگنا جلوت
کہ یہ دنیا ہی خلوت ہے
وہ حسنِ قاتل و انمول
جانے کس کی قسمت ہے
دل آگے رکھ دیا اُن کے
وہ چاہے بے مروت ہے
بُرا کیا ہے جو ٹھکرا دے
یہ ہی اس دل کی قیمت ہے
ندیم اس دُکھ کو سہہ لینا
اگر سچی محبت ہے
(ایک قلمی دوست کے نام جس نے ملنے سے انکار کر دیا )