دُور آسمان پرکوئی رستہ نظر آئے مجھے
کوئی نازنین اُس جہاں میں بلائے مجھے
جہاں بستیاں فقط دل والوں کی ہو ں
جو نفرت نہ جانے اور پیار سکھائے مجھے
ٹوٹا سااک مکان اس بستی میں میسر ہو
میری طرح اک رُوح پرور بھی مل جائے مجھے
دن خوشیوں بھرا رات صدیوں پر ہو محیط
دن کو بہلاکر رات کوبانہوں میںسلائے مجھے
نہ فکر معاش ہو نہ خوفِ جزا و سزا
شراب حلال ہو اور اپنے ہاتھوں سے پلائے مجھے
نہ مستقبل کا خیال ہو نہ بیماریوں کا ہو یلغار
میں اُس پر مر مٹوں اور وہ بس چاہے مجھے