ایک کہانی کے دو کردار میں اور تم
ٹہرائے گئے ہیں سزاوار میں اور تم
وقت رخصت آیا تو دل تھم سا گیا
تنہائی میں رونے لگے ہیں میں اور تم
اجنبی تھے اجنبی ہی رہ گئے
اپنی اپنی ذات میں گم ہو گئے میں اور تم
زندگی گر کرے وفا تو وعدہ ہے
اک بار پھر ملیں گے میں اور تم
موت بھی ہم پہ رشک کرنے لگی
زیست کے ٹھکرائے ہوئے ہیں میں اور تم