اے گردش ایام ذرا رُک تو سہی
اک دم تو ذرا لے لینے دے مجھ کو
پھر چاہے گرانا شوق سے تم
پر سنبھل تو ذرا تُُو لینے دے مجھ کو
جرم تُو نے محبت کو کہے تو دیا
پر منصف فیصلے سے قبل
ہے شریک جو میرے جرم کا
نام اُس کا بھی تو لینے دے مجھ کو
اے عاشق وقت کیوں کرتا ہے
تُو دعویٰ عشق و محبت کا
اُن لوگوں سی تیری طبیعت کہاں
کہاں وہ کہاں تُو رہنے دے مجھ کو
نا اُمید سحر کی دکھا تُُو مجھ کو
پھر حقیقت سامنے ہو جائے گی
کہیں انکھو سے اوجھل نا ہو جائے وہ
تُو خواب میں ہی رہنے دے مجھ کو