باہر نکلو، باہر نکلو ، اُٹّھو لوگو باہر نکلو
Poet: وَرْد بزمی By: Ward Bazmi , Islamabadباہر نکلو ، باہر نکلو، اُٹّھو لوگو باہر نکلو
پرچم نے پُکارا ہے لوگو،دھرتی نے دہائی دی سُن لو
باہر نکلو، باہر نکلو ، اُٹّھو لوگو باہر نکلو
تاریخ گواہی دیتی ہے، جب جب بھی کفن باندھا سر پر
چوروں کی طرح غاصب قابض، ہم لوگوں سے بھا گا ڈر کر
حق اپنا ہم لے لیتے ہیں مانگ اپنی خُون سے بھی بھر کر
باہر نکلو، باہر نکلو ، اُٹّھو لوگو باہر نکلو
ہم امن کے داعی ہیں لیکن، اک جابر نے للکارا ہے
ہم لوگوں کے ہر اِک حق پر، شب خُون آمر نے مارا ہے
پھر قاسم کے اِن بیٹوں کو اِک داہر نے للکارا ہے
باہر نکلو ، باہر نکلو ،اُٹّھو لوگو باہر نکلو
مصلُوب رہیں گے صدیوں تک ہم لوگ اگر ڈر جائیں گے
آزادی لینے کی خاطر حد ہوگی ہم مرجائیں گے
پر آنے والی نسلوں کو آسُودہ تو کر جائیں گے
باہر نکلو، باہر نکلو ، اُٹّھو لوگو باہر نکلو
ہرایک رُکاوٹ کو توڑو انصاف کی سب راہیں کھولو
مت قید کرو تُم لفظوں کو، لب اپنے ہیں کُھل کر بولو
ہمّت پکڑو مت گھبراؤسیدھا رستہ ہے مت ڈولو
باہر نکلو، باہر نکلو، اُٹّھو لوگو باہر نکلو
سب لوگ اذانِ وقت سُنو،سونے والوں کو جھنجھوڑو
ظالم کے ظُلم کی زنجیریں، تُم اپنے ایکے سے توڑو
اس سے پہلے وہ وار کرے تُم اُس ظالم کا سر پھوڑو
باہر نکلو، باہر نکلو، اُٹّھو لوگو باہر نکلو
شَبّیر کے پیروکار ہیں وَرْد اسلام ایمان بچانا ہے
ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے وطن ہم کو ہر آن بچانا ہے
کل پاکستان بنایا تھا، اب پاکستان بچانا ہے
باہر نکلو، باہر نکلو ، اُٹّھو لوگو باہر نکلو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






