برسات کی خوش رنگ فضاوں کا سماں ہو
میں اس کا کبھی نام پکارو وہ جہاں ہو
اک بار محبت کا کوئی پھول کھلا دو
اک بار محبت کی یہاں شام یہاں ہو
لوٹ آئے وہ لے کر مری روٹھی ہوئی نیندیں
وہ بھیجے گا کیا پیار کا پیغام کہاں ہو
بکھرے ہوئے بیٹھے ہیں وہی آپ وہی ہم
سوچوں کے دریچے ہیں وہی خواب وہاں ہو
اک چاند جدا اپنی زمیں سے جو ہوا تھا
واپس نہیں لوٹا وہ خلا وں سے عیاں ہو
تقدیر کے لکھے کو بدلنے کی طلب میں
باعزم ہو تدبیر پہ تدبیر نہاں ہو
اس کو تو کوئی شہر بھی اب راس نہیں ہے
میں اس کا کبھی نام پکارو وہ جہاں ہو
جس سمت سے آئے تھے اُسی سمت کو چل کر
عمال گذشتہ کے ثمر کا وہ زباں ہو
ہے کوئی ادا کر دے ہمیں پیار کی دولت
دھرتی پہ وفاؤں کا نگر ڈھونڈ وہاں ہو
اے وشمہ مجھے اپنی نگاہوں سے پلا دو
بھٹکے رہے بادل بھی ہوا وں کا سماں ہو