برسوں پہلے ایک خواب میں نے دیکھا تھا
ایک حسین پھولوں کی وادی تھی
جہاں خوبصورت تتلیاں اور جگنو تھے
وہ تتلیوں کو ہاتھوں میں بند کرکے اڑاتی تھی
میں پھولوں کو چن کر ایک گلدستہ بناتا تھا
اسے جب پیش کرتا تھا وہ بہت مسکراتی تھی
پھر ایک بینچ پھر بیٹھ کر سورج ڈھلنے کا انتظار کرتے تھے
اندھیرا ہوتے ہی بہت سارے جگنو وہاں پرواز کرتے تھے
میری جب آنکھ کھلی تو میں بہت اداس ہوا تھا
مجھے اس وادی میں رہنا تھا اس سے باتیں کرنی تھیں
مدتوں بعد کل رات میں نے پھر وہی خواب دیکھا تھا
وادی تو وہی تھی مگر منظر بہت اداس دیکھا تھا
پھول سارے گر گئے اور پودے سوکھے ہوئے تھے
مردہ تتلیوں کے پر ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے
وہ جگنو سارے اب مر چکے تھےاس بینچ کو بھی گھن لگا تھا
گھپ اندھیرا تھا اور میں بھی تنہا تھا
اب میں چاہتا تھا کہ میری آنکھ کھل جائے
مجھے اب اپنی دنیا میں واپس جانا تھا