مجھے مندر محبت کا سجانا ہے ذرا ٹھہرو
مری راہوں میں حائل اک زمانہ ہے ذرا ٹھہرو
مجھے عادت سلگنے کی پڑی ہے ایک مدت سے
ابھی جی بھر کے اس نے بھی جلانا ہے ذرا ٹھہرو
میں کس کو دوش دوں اپنی محبت کے حوالے سے
مرا دشمن مرا اپنا گھرانہ ہے ذرا ٹھہرو
ابھی مجھ کو مری اس کم نصیبی کا نہیں شکوہ
مری قسمت کا لکھا مجھ کو آنا ہے ذرا ٹھہرو
میں تیرے آستانے پر ابھی تو رک نہیں سکتی
مجھے پھر لوٹ کر واپس ہی جانا ہے ذرا ٹھہرو
مجھے اپنی محبت کی فقیری میں ہی رہنا ہے
ابھی اس کی خدائی کا زمانہ ہے ذرا ٹھہرو
میں اس کی راہ میں اپنی یہ جاں بھی وار سکتی ہوں
مگر وشمہ یہ قصہ تو پرانا ہے ذرا ٹھہرو