بناوُ سنگھار تو تہذیب ہے جوانی کی
ہم نے چاھا تو عجب کیو ں ہے
صورت تو تمھاری بھی کچھ کم نہیں
پھریہ حال بنا رکھا کیو ں ہے
مہرو وفا میں کویی کمی دیکھی ہے؟
دل یہ احساس دلاتا کیوں ہے
ہم نے جوانی کی دہلیز نہیں دیکھی ہے؟
ہونٹ سی رکھے ہیں کیی برسوں سے
الفاظ نہ جانے قلم سے نکلتے کیوں ہیں
ہم نہ یوسف تھے نہ خواہش تھی ذولیقہ کی
کتنا آساں تھا بن کی رہتیں تم عروسہ بابر کی
( یہاں لفظ عروسہ دُلہن کے معنوں میں استعمال کیا ہے )