موہوم سی جنبش پلکوں کی جذبوں کو نم کر جائے گی
لرزتے ہونٹوں پہ کوئی بات نہ ڈھنگ سےآئے گی
ہاتھوں کو لے ہاتھوں میں ڈھارس بندھائی جائے گی
عہدوپیماں کی رسم پھر سے دھرائی جائے گی
پہلی فرصت میں لوٹوں گا ہر لمحہ تم کو سو چوں گا
حراساں دل کی دھڑکن ترتیب میں لائی جائے گی
وہ بات کہ دو دلوں کو جسکا دھڑکا ہے
زباں نہ کہہ پائے گی آنکھوں سے بہہ جائے گی
جوڑے میں پھول لگاوگی نہ گجرے سے کلائی مہکاوگی
کچھ حق جتایا جایے گا کچھ محرومی بہلائی جائے گی
وہ ہاتھ نہ چھوڑیں گے میرا میں بھی نہ چھڑانا چاہونگی
بچھڑنے سے کچھ پہلے کی ملاقات تا دیر بڑھائی جائے گی