بھر بھر کے دے مجھے جام ساقی
شاید آ جائے مجھے آرام ساقی
دے جام میں ملا کے زہر مجھے
مجھ پےہوگا تیرا احسان ساقی
پھر نہ آئے گے تری دہلیز پے
میرا آخری کر دے کام ساقی
اُس کی یادوں کی گرفت میں ہوں
نکلنا میرا ہوگیا ناکام ساقی
بیھٹو آکے پاس میرے
کرو پیار سے تم کلام ساقی
کھیچ لاتی ہے یادیں میخانے میں
جب بھی ہوتی ہے شام ساقی
پِلا دے سارا میخانہ مجھے آج
جو لینا ہے لے دام ساقی
اپنے حُسن کے ساتھ ساتھ اُس نے
میرے ارمان بھی کیے نیلام ساقی
آیا ہے اُس کی جانب سے اِک خط
لکھا ہے میرے نام یہ پیغام ساقی
کہتا ہے تُو مجھے بھُلا دے اب
جیسے آسان ہے یہ کام ساقی
کون کرتا ہے پیار آج کل کسی سے
سب کرتے ہیں حُسن کو سلام ساقی
مقرر کرو کب دو گے مکمل سزا مجھے
کرو مقرر کوئی اب ایام ساقی
میرے جانے کے بعد اُس پے
رہے گا بے وفائی کا الزام ساقی
کومل کہتا رہا جو کے پتھر تھا
سمجھا تب جب ہوا سب تمام ساقی
نہال زندگی سے نہ جُڑا تو کیا ہوا
میری موت سے جُڑ گیا اُس کا نام ساقی