بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، تھوڑا سا
کریدنا ہے مجھے دل کا داغ، تھوڑا سا
مسافرت میں بس اتنی سی میری خواہش ہے
شجر کی گود میں پاؤں فراغ تھوڑا سا
یہ کیا کہ تُم نے عداوت یہاں بھی دکھلا دی
بھرا ہے گھی سے جو میرا چراغ، تھوڑا سا
نشے میں باد صبا تھی کہ زُلف چھو آئی
ہے گُل سرور میں ، مخمور باغ ، تھوڑا سا
نظر پڑی ہے جو دل پر، ہیں نقش پا تیرے
ملا تو دل کی لگی کا سُراغ، تھوڑا سا
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، ہے دعا اظہر
قبول ان کو بھی کر لے دماغ ، تھوڑا سا