وہ رُوٹھا رُوٹھا سا لگتا ہے
پر دل کو بھلا سا لگتا ہے
ہر بات میں اپنائیت ہے
ذرا پگلا سا وہ لگتا ہے
دوست نہیں وہ ساحر ہے
مجھ پہ اُس کا رنگ چڑھا سا لگتا ہے
وہ ساتھ ہو تو بہار ہے
اُس کے بن ہر موسم خزاں سا لگتا ہے
کہو اُس سے، مجھ سے نہ رُوٹھے “فائز“
بنا اُس کے وقت بھی ٹھہرا سا لگتا ہے