بھل ملے نہ ماہی دیدار ہیں بہت
ایک الفت لیئے اتنے آزار ہیں بہت
وہ رلانے کا ہنر کیوں نہیں رکھتے
سنا ہے اُن کے پاس مجاز ہیں بہت
بے وجہ کبھی الجھو نہ آنکھوں میں
اوروں کی نگاہیں دشوار ہیں بہت
قطعہ زمین کے گلشن کا غم نہیں
پھول نہ بھی کھلیں تو ابھار ہیں بہت
میں اپنی حالت کا کھلا اظہار کرتا ہوں
کہ مقدر کے فقط ادھار ہیں بہت
تیری یاد نے کبھی رحلت کرنا سیکھا؟
ہر شب میں تعش کے خمار ہیں بہت