بھٹک کر گمنام راستے پیروں میں ٹھہر جاتے ہیں
Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithiبھٹک کر گمنام راستے پیروں میں ٹھہر جاتے ہیں
قابل لحاظ کچھ لوگ اندھیروں میں ٹھہر جاتے ہیں
یہ زمانہ کچھ حالتوں سے بھی مطابقت رکھتا ہے
کہ گھر ہوتے ہوئے مزاج بازاروں میں ٹھہر جاتے ہیں
میری کسی قلت کو اب بھی عبادت کی ضرورت ہے
کبھی کبھی ہم کئی آزاروں میں ٹھہر جاتے ہیں
سنیں تو ہر گلے سے اپناپن گرجتا ہے پھر بھی
مفلسی میں بے زر! وہیں مکاروں میں ٹھہر جاتے ہیں
میں میری خودنمائی سے اتنا واقف تو نہیں مگر
خاک پہ رہتے خیال اکثر ستاروں میں ٹھہر جاتے ہیں
بے وفائی کے کمال کو سب نے شوخ سمجھا سنتوشؔ
قابل یقین کہیں ہم اعتباروں میں ٹھہر جاتے ہیں
More Love / Romantic Poetry






