بہت کچھ کہنا تھا تم سے
مگر کیوں بستے ہو
میرے بن بھی دیکھو تم
کتنا خوشی سے ہستے ہو
کبھی تو پوچھو گیے مجھ سے
آخر میری راہ کیوں تکتے ہو
کہیں بھی جانا ہو تم کو
تو اتنا کیوں سجتے ہو
میرا ہی نام لینے پر
تم اتنا کیوں مچلتے ہو
اب بھی بچوں کی طرح
کیوں گر گر کے سمبھلتے ہو
جو خط کبھی ارسال نہیں کرنا
پھر کیوں ُاس کو لکھتے ہو
میں بھول جاؤں گئی تم کو
تم خود کو کیا سمجھتے ہو
بہت کچھ کہنا ہے تم سے
مگر کیوں دور بستے ہو