آ سپنوں کے معمار تمہیں آواز دیتے ہیں
میرے گھر کے در و دیوار تمہیں آواز دیتے ہیں
رات بھر ہمارے بے چین ہو کے دل سے
جب اُٹھتے ہیں غبار تمہیں آواز دیتے ہیں
دیوانگی میں پھول کو جب چومتا ہے بھنورا
ہم ہو کے بےقرار تمہیں آواز دیتے ہیں
آغوش میں جاتا ہے جب بادلوں کی چاند
میری بانہوں کے حصار تمہیں آواز دیتے ہیں
چہرے پہ سجا کر یہ رنج و بیقراری
ہم بن کے اِشتہار تمہیں آواز دیتے ہیں
ہنسی میں اُبھر کر کبھی آنسووں میں ڈھل کے
میری غزلوں کے اِشعار تمہیں اواز دیتے ہیں