بے نشان راستوں پر
نا معلوم سفر پہ
دکھتے پاؤں اور بوجھل دل سے
چل پڑا ہوں اک بار پھر سے
اس سفر میں ہمراہی میرے
سارے دکھ اور سارے درد
میں اکیلا بے رہنما
کس سے پوچھوں میں راستہ
اور بتائے بھی کون بھلا
کہ خود منزل کا نہیں پتا
میں کب سے چلا ہوں کب تک چلوں گا
کچھ یاد نہیں نہ ہے خبر
کئی بار تھک کے میں بیٹھ گیا
پاؤں چھالوں سے اٹ گئے
سانسیں بھی پھر ٹوٹنے لگیں
مجھے لگا کہ اب اٹھ نہ سکوں گا
اس سے آگے چل نہ سکوں گا
میں خود کو حوصلہ دینے لگا
کہ ابھی تو جفاؤں کا آغاز ہوا ہے
ابھی سے تھک کے بیٹھ گئے
ابھی تو سفر کٹھن پڑا ہے
ابھی سے حوصلہ توڑ دیا ہے
ابھی تو طوفان آیا نہیں ہے
ابھی سے سانسیں ٹوٹ گئی ہیں
چلو اٹھو سنبھالو خود کو
ٹوٹتی سانسوں کو پھر سے جوڑو
چلو بڑھو اور بڑھتے جاؤ
میں اٹھ پڑا اور یوں لگا
جیسے ساحل سے دھکیل دے کوئی
ابھرتی لہروں میں پھینک دے کوئی
بپھرتی لہریں لے کے چلیں
کبھی چٹانوں میں کبھی بھنور میں
میں نے چاہا کہ لوٹ جاؤں
پھر سے اسی ساحل پہ جہاں سے
گٹھڑی دکھوں کی باندھ کے چلا تھا
اس گٹھڑی کو میں پھینک آؤں
کہ بوجھہ بڑا ہے سفر کڑا ہے
مگر میں ایسا کر نہ پاؤں
کہ اس ساحل پہ جانے کے سارے راستے
کٹ چکے یا ڈوب چلے ہیں
میں خواہشوں کا گلا دبا کے
خود کو لہروں کے سپرد کر کے
چل پڑا ہوں نا معلوم سفر پہ
بے نشان راستوں سے گزرتا ہوا
نجانے لہریں پار لگا دیں
یا بھنور میں پہنچا کے لوٹ آئیں
اس کے بعد کیا ہوگا
یہ سوچنا تو عبث ہے زلفی
کہ لہروں پہ مجھ کو بھروسہ نہیں ہے
جو بھی ہے بس ایک یقیں ہے
کہ لوٹ آنے کا امکاں نہیں ہے