بے وفا میں بھی نہیں اور تو بھی ہرجائی نہیں
آج بھی چاہت اگرچہ ہونٹ تک آئی نہیں
اس کا جوبن تیر بن کر دل پہ اترا ہے مگر
پھر بھی ان سے اپنی چاہت میں نے جتلائی نہیں
کیوں نہیں خوشبو صباء کے ہاتھ میں جانِ جگر
آج زلفِ عنبریں لگتا ہے لہرائی نہیں
آگئی شہرِ غضنفر میں جو بے خوف و خطر
کیوں ہرن بھی اس شہر میں آن گھبرائی نہیں
عشق میں خنجر اٹھا اور عشق پر چلنے لگا
کیوں خدارا ذہن سے یہ بات ٹکرائی نہیں
ہر کس و ناکس بلندی پیار کی پاتا نہیں
تحفہ ء قدرت ہے جانوں پیار رسوائی نہیں
داو پر جس کے لئے میں نے لگا دی ہر خوشی
جعفری میری تو اس نے بھی قدر پائی نہیں