روح شفاف ہے اک ہرا بدن
ہاں کدورت نہیں ہمارا چلن
دو ستارے تھے اسکی پلکوں پر
یا ہمارا ہی تھا وہ بھولا پن
شام کو سرمئی سے رستوں پر
لوگ دیکھے گئے ستارہ بدن
تتلیوں کی طلب نہیں مٹتی
بھولتا ہی نہیں مجھے بچپن
وہ سنے کیسے داستان میری
ہر نیا لمحہ اک نئی الجھن
وہ ستارہ نژاد ہے شاہد
اسکے آنے سے گھر ہوا روشن