تجھ سے یا خود سے دور ہوئے ہم
بنا توٹے نہال بڑے چُور ہوئے ہم
بے وفا کو بے وفا نہ کہہ سکے جب
تو اپنے لئے ہی زہریلا نسور ہوئے ہم
زندگی کی نئی منزل پہ پہنچ کر حیران ہوئے
کہاں پہنچے کہاں سے عبور ہوئے ہم
موسم بھی وہی رہا نہ بدلے دن و رات
ترے جانے کے بعد تنہا ضرور ہوئے ہم
تنگیاں ، مصیبتیں ، مسلے ، مسائل پہلے بھی تھے
مگر پہلے نہ کبھی اتنے مجبور ہوئے ہم
فریب دیے کس نے ، کس نے جرم کیے
اِسی سوچ میں قید بے قصور ہوئے ہم
اُس کی سہیلیوں نے بتایا اُسے اِک گدا بارے
نہال اِس طرح چرچہ ہوا مشہور ہوئے ہم