رخ ہوا کا بدل بھی سکتا ہے
سوچ گھر تیرا جل بھی سکتا ہے
مینڈکوں کو نگلنے والے سانپ
تجھ کو اژدہ نگل بھی سکتا ہے
اپنا لہجہ بدل کے دیکھو تو
بے رحم دل پگھل بھی سکتا ہے
ڈوبنے والے کر خدا کو یاد
تجھ کو دریا اگل بھی سکتا ہے
یار کر احتمام پردے کا
نوجواں دل مچل بھی سکتا ہے
سنگ کیچڑ میں مارنے والے
تجھ پہ کیچڑ اچھل بھی سکتا ہے