ترا پیار یا پھر قضا چاہتا ہوں
میں اپنے مرض کی دوا چاہتا ہوں
سنا ہے کہ اس کی ادا ہے نرالی
میں اس کی ادا دیکھنا چاہتا ہوں
ستم بھی ہے اچھا ترا اے ستم گر
ترا یہ کرم بارہا چاہتا ہوں
بنا لے تو مجھ کو اسیر محبت
محبت کی میں یہ سزا چاہتا ہوں
مجھے بھی خبر ہے تو کیا چاہتی ہے
تجھے بھی خبر ہے میں کیا چاہتا ہوں